حدیث یزید،محدثین کی نظرمیں



ڈاؤنلوڈ





یہ تحریر(حدیث یزید محدثین کی نظر میں) ہمارے خلاف زبیرعلی زئی صاحب کی لکھی گئی آخری تحریر(کفایت اللہ سنابلی ہندی کے دس جھوٹ)کاجواب ہے۔زبیر علی زئی صاحب نے اپنی اس تحریر میں ناچیز کے لئے جو زبان استعمال کی ہے اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
* ’’سنابلی صاحب کی اس تحریرسے ان کے دس(۱۰)صریح جھوٹ باحوالہ ومع ردپیش خدمت ہیں‘‘(مقالات ج6ص388)
*’’اس حدیث کو سنابلی اینڈپارٹی کاموضوع ،من گھڑت اور مردودکہنا بہت بڑا جھوٹ ہے‘‘(مقالات ج6ص404)
*’’سنابلی صاحب کوچاہئے کہ وہ تمناعمادی اوربشیراحمدمیرٹھی وغیرہماکی پکڈنڈیوں کو چھوڑ کرمحدثین کرام کی جرنیلی شاہراہ پرگامزن ہوجائیں اورمنکرینِ حدیث کے لئے چور دروازے نہ کھولیں‘‘(مقالات ج6ص393)
*’’سنابلی صاحب کوچاہئے کہ وہ اپنے باطل اصول کی لاج رکھتے ہوئے صحیح بخاری اورسنن ترمذی والی حدیث کو بھی موضوع اورمن گھڑت قراردیں،تاکہ سبیل المجرمین واضح ہوجائے‘‘(مقالات ج6ص403)
* ’’جس طرح سنابلی صاحب نے حافظ ابن کثیرپرجھوٹ بولاتھا(دیکھئے فقرہ نمبر۵)اسی طرح مولوی ابن طولون پربھی کالا جھوٹ بولاہے‘‘(مقالات ج6ص407)
*’’ عرض ہے کہ جھوٹ نہ بولیں اور اہلِ علم پربہتان وافتراء کاطومارنہ باندھیں‘‘(مقالات ج6ص406)
*’’ منکرینِ حدیث کے نقوشِ قدم پرچلنے والے سنابلی صاحب کو آئینہ دکھایاجائے۔‘‘(مقالات ج6ص409)
---
یہ صرف چند نمونے ہیں ورنہ موصوف کی پوری تحریر اسی لب ولہجے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اور حد ہوگئی کہ زبیرعلی زئی صاحب نے صرف ناچیز ہی پربس نہیں کیابلکہ بعض ان شخصیات پربھی جملے کس دئے ہیں جن سے ہم نے اپنی تائیدمیں کچھ نقل کیا مثلا امام ابن الصلاح ، امام سیوطی ، امام محمدبن طاھر المقدسی ، مورخ ابن طولون رحمھم اللہ (تفصیل کے لئے لنک سے ہمارا جواب ڈاؤنلوڈ کرکے پڑھیں)
---
* علمی حلقوں میں معروف ومقبول ترین کتاب ’’مقالات اثریہ‘‘ کے فاضل مؤلف (شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ ) کے بارے میں لکھا:
’’سنابلی صاحب نے اپنی تائید میں غلط منہج، باطل اصول اوردوغلی پالیسی والے خبیب احمدفیصل آبادی کاحوالہ مقالات اثریہ(ص۴۰۳) سے پیش کیاہے۔‘‘(مقالات ج6ص406)
ملاحظہ فرمایا آپ نے!زبیرعلی زئی صاحب نے نہ صرف یہ کہ ناچیز پرکرم فرمائی کی بلکہ ان اہل علم کی بھی خاطرتواضع کردی جن کے حوالے ہم نے دئے تھے،صاف ظاہرہے کہ موصوف اختلاف رائے کے وقت نہ صرف یہ کہ فریق مخالف کی تحقیرکربیٹھتے ہیں بلکہ اس پربہتان وافتراء سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔اورہرشخص کے یہاں اس کی نوبت تبھی آتی ہے جب وہ جواب نہیں دے پاتا۔
ہم جیسے ناکارہ وبے علم توکسی قطار میں نہیں ہیں ،علامہ البانی رحمہ اللہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب کی شرمناک جسارت ملاحظہ ہو،لکھتے ہیں:
’’معلوم ہواالبانی صاحب کسی طبقاتی تقسیمِ مدلسین کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ اپنی مرضی کے بعض مدلسین کی معنعن روایات کوصحیح اورمرضی کے خلاف بعض مدلسین (یاابریاء من التدلیس)کی معنعن روایات کوضعیف قراردیتے تھے ۔اس سلسلے میں ان کاکوئی اصول یاقاعدہ نہیں تھالہٰذا تدلیس کے مسئلے میں ان کی تحقیقات سے استدلال غلط ومردودہے ‘‘(مقالات ج2ص321)
اب کیا کوئی بھی عد ل پسند شخص اس بات سے انکارکرسکتاہے کہ اس اقتباس میں زبیرعلی زئی صاحب نے نہ صرف یہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے ساتھ بے ادبی کی ہے بلکہ ان پربدترین کی قسم کی بہتان تراشی بھی کردی ہے۔
بلکہ آں جناب نے ایک دوسری جگہ علامہ البانی رحمہ اللہ کانام لئے بغیران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسی مسئلہ میں ان پرصراحتادوغلی پالیس کاالزام جڑدیا ۔(اضواء المصابیح ج1ص189)
زبیرعلی زئی صاحب کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ کسی کی رائے ان کے خلاف ہوتی ہے تو موصوف مخالف کو صرف اس مسئلہ میں ہی نہیں بلکہ اس کے منہج ہی کوغلط کہہ ڈالتے ہیں ،حتی کی علامہ البانی رحمہ اللہ تک کے بارے میں ایک جگہ لکھ ڈالا:
’’شیخ محمدناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے منہج میں خطاکی وجہ سے اس روایت کوضعیف الاسنادقراردیا ہے۔‘‘(فتاوی علمیہ ج1ص661)
جب علامہ البانی رحمہ اللہ جیسی مقبولِ عالم، شخصیت کے ساتھ زبیرعلی زئی صاحب کاقلم اس قدر آوارگی کاشکارہوسکتاہے توہم غریبوں پرطعن وتشنیع اور بہتان وافتراء کون سی بڑی بات ہے۔
بہرحال غیض وغضب کے ساتھ اہانت آمیز کلمات ،بہتان و افتراء، اور’’مہذب گالیوں‘‘ میں ڈوبی ہوئی آں جناب کی تحریر کاجواب دیتے وقت آسان نہیں ہے کہ جذبات پر قلم کی گرفت قائم رہے ۔پھربھی ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ہمارے جواب میں ’’ترکی بترکی ‘‘ کارنگ نہ پیدا ہونے پائے۔البتہ جہاں تکذیب اوربہتان تراشی کاالزام ہے وہاں جھوٹ کاپردہ فاش کرنا ہم نے ضروری سمجھا ہے ۔
ہماری پوری کوشش اوراحتیاط کے باوجود اگرکہیں نوکِ قلم پرکچھ ناگوارالفاظ آجائیں تو اسے (لَا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ(النساء148))(اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو) پرمحمول کیاجائے۔
اسی آیت کی تفسیرمیں مفسرین ایک حدیث پیش کرتے ہیں جوصحیح مسلم میں اس طرح ہے:
عن أبی ہریرۃ، أن رسول اللہ ﷺ، قال:المستبان ما قالا فعلی البادیء، ما لم یعتد المظلوم‘‘
’’صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’آپس میں ایک دوسرے کوبراکہنے والے جوکچھ کہیں گے اس کاگناہ اس کے سرہوگا جس نے براکہنے کی شروعات کی ہے۔جب تک کہ مظلوم حدسے تجاوزنہ کرے‘‘۔‘‘(صحیح مسلم حدیث نمبر2587)
واضح رہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے میرے خلاف جتنے بھی مضامین لکھے تھے سب کا جواب میں نے ان کی زندگی میں دے دیا تھا اور زبیرعلی زئی صاحب نے انہیں پڑھ بھی لیا تھا ، یہ جوابی تحریر بھی زبیرعلی زئی صاحب کی زندگی میں ہی لکھی گئی تھی لیکن قبل اس کے کہ اس کی اشاعت کی جاتی زبیرعلی زئی صاحب کی شدید بیماری کی خبرآئی پھر ہم نے اس تحریرکی اشاعت ملتوی کردی ۔اوراس انتظار میں تھے کہ آں جناب صحت یاب ہوں پھران کی خدمت میں اسے پیش کیاجائے گا۔لیکن اس بیماری سے وہ صحتیاب نہ ہوسکے اور بالآخرایک دن فوت ہوگئے ، غفراللہ لہ۔
ان کی وفات کے بعد ہم نے یہ سلسلہ بندکردیا اوراس تحریرکو بھی شایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس بیچ ان کے چاہنے والوں نے مجھ پرسب وشتم اور طعن وتشنیع کی حدکردی اورہرجگہ فخریہ اعلان کرتے رہے کہ ناچیز جواب سے عاجزہے۔ پھربھی ہم نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا حتی کہ کچھ دنوں بعدزبیرعلی زئی صاحب کی مقالات کی چھٹی جلد شائع ہوئی اوراس میں بھی میرے خلاف زبیرعلی زئی صاحب کی اس تحریر کوشائع کردیا گیا ۔
پھربھی ہم نے اپنی اس تحریر کوعام نہیں کیا لیکن چونکہ زبیرعلی زئی صاحب کی آخری تحریر کو ان کے مقالات میں شائع کردیا گیا اس لئے اس بیچ یزیدبن معاویہ سے متعلق ہماری تفصیلی کتاب ’’یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ ‘‘ مرتب ہوئی تو اس کتاب میں ہم نے اس سلسلے کی اپنی دیگرتحریریں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ زبیرعلی زئی صاحب کی آخری تحریر کا جواب بھی انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کردیا ۔ہماری اس کتاب کے طبع ہونے کے بعد زبیرعلی زئی صاحب کی آخری تحریر کو لے کر پھرہمارے خلاف سب وشتم اور طعن وتشنیع کاسلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس لئے اب ہم نے ضروری سمجھا کہ ہمارا مفصل جواب بھی لوگوں کے سامنے آجاناچاہئے۔لہٰذا یہ تحریر نظرثانی اوربعض کمی وبیشی کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
ایک شکوہ کاجواب
یہ تحریرانتہائی اختصارکے ساتھ ہماری کتاب ’’یزیدبن معاویہ پرالزامات کاتحقیقی جائزہ‘‘ میں صرف دس صفحات (ص۱۹۸ تا ۲۰۷)پرنشر ہوئی توبعض حضرات وہی باتیں کہنے لگے جو زاہد کوثری کی وفات کے بعدعلامہ المعلمی رحمہ اللہ کی تحریر نشر ہونے پرکہی گئیں ، اس سلسلے میں عرض ہے:
* اولا:۔اگرہم نے زبیرعلی زئی صاحب کی زندگی میں مکمل خاموشی اختیارکی ہوتی اوران کی وفات کے بعد ان کاجواب دیناشروع کیا ہوتا توکسی حد تک یہ شکوہ بجاتھاکہ ان کی حیات میں ان کاجواب کیوں نہیں دیا گیا۔لیکن ہمارے قارئین اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم نے موصوف کی زندگی میں تین باران کوجواب دیا ہے۔یادرہے کہ تیسری بار ہم نے جوجواب دیا تھا اس کا مکمل جواب زبیرعلی زئی صاحب نے وفات تک نہیں دیا۔
* ثانیا: ۔ہماری تیسری تحریر کے جواب الجواب کو زبیرعلی زئی صاحب نے بقول خود ۲۷/جون ۲۰۱۳ء کو مکمل کیا تھا، اور ۳/اگست ۲۰۱۳ ء کو موصوف کی تحریرمحدث فورم پرپیش کی گئی اس کے بعد ہی ہمیں اس کاعلم ہوا۔اوران کی وفات ۱۰/ نومبر ۲۰۱۳ء کو ہوئی غورکریں ہم تک یہ تحریر موصول ہونے اور زبیرعلی زئی صاحب کی وفات کے بیچ صرف تین ماہ اورچنددنوں کافاصلہ ہے۔
ذراسوچئے اس مختصرمدت میں اگرہماراجواب پیش نہیں ہوا توکس عقل ومنطق سے کہا جاسکتا ہے کہ موصوف کی زندگی میں ان سے مرعوب ہوکر ناچیزجواب دینے سے عاجزتھا۔بالخصوص جبکہ ان کی زندگی میں تین بارناچیز نے جواب حاضرکردیاہے۔
* ثالثا:۔ہمارے تیسرے جواب کاادھورا جواب الجواب جوں ہی ہمیں موصول ہوا ہم نے اسی وقت محدث فورم پر اعلان کردیا کہ ہم اس کا جواب پیش کریں گے ۔لیکن ہمارا جواب مکمل ہوا توموصوف کی شدید بیماری کی خبریں عام تھیں اس لئے ہم ان کی صحتیابی کاانتظارکرنے لگے ،لیکن اللہ کی مرضی وہ صحت یاب نہ ہوسکے اورفوت ہوگئے اناللہ وانالیہ راجعون ۔غفراللہ لنا ولہ۔
غورکریں اگر ان کی زندگی ہی میں جواب دینے کاعزم ہمارا نہ ہوتا توہم مذکور ہ اعلان کیوں کرتے ؟ اگرموصوف کی زندگی نے مزید ساتھ دیا ہوتا ،تویقیناان کی زندگی میں یہ جواب بھی اسی طرح پیش کردیا جاتا جس طرح اس سے قبل تین جوابات ان کی زندگی ہی میں حاضرخدمت کئے جاچکے تھے۔
واضح رہے کہ اگرزبیرعلی زئی صاحب کی آخری تحریر(جو ناچیز پر اتہامات اور افتراءات سے پر ہے) کو ان کے مقالات کی جلد 6 میں جگہ نہ دی جاتی توان کی وفات ہوجانے کے سبب یہ مفصل تحریر کیا اس سلسلے میں ہم کوئی مختصرجواب بھی شائع نہ کرتے گرچہ ہمیں اس کاحق تھا۔
موصوف کی تحریر کو ان حضرات نے اپنی سائٹ پر اپلوڈ کیا اورفیس بک وغیرہ کے ذریعہ پوری دنیا میں نشر کیا ،اورجی بھرکرگالیوں اور اتہامات سے نوازا۔ لیکن پھربھی ہم خاموش ہی رہے۔
لیکن افسوس کہ ہماری اس خاموشی کوغنیمت جا ن کرمعاملہ رفع دفع کرنے کے بجائے غیض وغضب اورسب وشتم میں ڈوبی ہوئی موصوف کی آخری تحریر ’’علمی مقالات ‘‘ کی زینت بنادی گئی!
اس پربھی ہم نے صرف یہ کیا کہ انتہائی اختصارکے ساتھ صرف دس صفحات پر اپنادفاع پیش کردیا بس۔لیکن اتنا بھی یاروں کو ہضم نہیں ہو رہاہے، نامعلوم کس مٹی کے بنے لوگ ہیں یہ کہ دوسروں کو جھوٹاکہیں ، جاہل کہیں ، گالیاں دیں،سب ان کے لئے جائز،اورکوئی محض اپنے دفاع میں چندسطریں لکھ دے تو وہ قطعااس کا مجازنہیں!
اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان حضرات نے زبیر علی زئی صاحب کو ان کے قد سے کہیں اونچا سمجھ لیا ہے بلکہ ایک منچلے نے تو یہاں تک لکھ ڈالا:
’’میرے نزدیک حافظ زبیرعلی رح کامقام امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے کہیں بڑھ کرہے‘‘( عکس کے لئے دیکھئے ہماری جوابی تحریر کا صفحہ 6)
انا للہ وانالیہ راجعون
۔۔۔۔
۔۔۔۔


 زبیر علی زئی  صاحب نے میرے خلاف اپنے جس مضمون کا  عنوان دیاہے (کفایت اللہ سنابلی ہندی کے
 دس جھوٹ ) جناب کا یہ مضمون ان کے مقالات کی چھٹی جلد میں شائع ہے اسے نیچے کے لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں۔ 
ہماری یہ تحریر اسی مضمون کا جواب ہے۔


Post a Comment

1 Comments

  1. السلام علیکم
    آپ سے گزارش ہے کہ اگر مصنف کی رجوع سے پہلے والی بات حجت ہے تو پھر ایک مشورہ ہے کہ آپ سنابلی صاحب سے کہیں کہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پہلے حنفی (تقلیدی) بھی تھے۔ کیا خیال ہے۔ آپ میں اور دیوبندیوں کے منہج میں کیا فرق اس زمرے میں؟!!

    ReplyDelete
Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)